امام تقی ع
نور خدا ذکی و رضی، مرتضی تقی ع
کوتاہ فکر کیا کرے تیری ثنا تقی ع
رندوں نے تیرے جشن کیا ہے بپا تقی ع
پیاسوں کو جام تقوی عطا ہو ذرا تقی ع
جسکو امام موسئ کاظم کریں سلام
وہ خوش نصیب یعنی تری والدہ تقی ع
تسبیح تیرے نام کی پڑھتا ہوں دم بہ دم
ہے نام تیرا رافع کرب و بلا تقی ع
ہوں گی وہاں وہاں گل تقوی کی نکہتیں
ہوگا جہاں جہاں بھی ترا تذکرہ تقی ع
قرآں میں دیکھتے ہی یہ تقوی کی آیتیں
بے ساختہ لبوں پہ مرے آگیا تقی ع
"من زار عمتی" کا یہ فرمان دیکھ کر
ہم ہو گئے ہیں زائر اخت رضا تقی ع
کشکول میرے ہاتھ میں آئے گا کیوں بھلا
میری نظر میں ہے ترا باب عطا تقی ع
تقوی مزاج ہوں میں گناہوں سے دور ہوں
میں نے بیاض قلب پہ لکھا ہے یا تقی ع
لیتا ہے درس تقوی، جہاں آ کے اک جہاں
ہے بے مثال دھر میں وہ مدرسہ تقی ع
اس واسطے نہیں ہے مجھے خوف گمرہی
رہرو ہوں میں ترا تو مرا رہنما تقی ع
دنیا ستم کی دنگ ہے یہ دیکھ دیکھ کر
دوش ہوائے ظلم پہ روشن دیاتقی ع
اللہ کی رضا کا وسیلہ ترا وجود
تو ہے جہاں میں ابن امام رضا تقی ع
جود و سخا و تقوی کا آئینہ بن گیا
جس شخص نے بھی تجھ سے کیا رابطہ تقی ع
یحی کا سب غرور ملایا ہے خاک میں
تو نے بدست علم ھدی با خدا جاتقی ع
آیا مریض چشم مداوا کے واسطے
تو نے شفا کا جام اسے دے دیا تقی ع
باب کرم پہ مہر بہ لب ہوں یہ سوچ کر
تو جانتا ہے نوری کا ہر مدعا تقی ع
محمد ابراہیم نوری
درباره این سایت